اسلام کی ہمہ گیری اوراُس کامزاجِ اعتدال

 

از: مولاناتوحید عالم بجنوری

مدرس دارالعلوم دیوبند

 

”اسلام“ ایک جامع اور مکمل نظامِ حیات ہے، جس میں انسانی زندگی کے مختلف اور متنوع گوشوں پر سیر حاصل ہدایات موجود ہیں، انسان اپنی زندگی کے کسی موڑ اور کسی مرحلہ میں کسی ایسی الجھن میں مبتلا نہیں ہوتا، جس میں اسلام نے اس کی راہنمائی نہ کی ہو۔ عقائد واعمال اور اخلاق ومعاملات کے سبھی پہلوؤں پر حسب ضرورت روشنی نہ ڈالی ہو، اس وقت دنیا میں کوئی مذہب اور قانون ایسا نہیں بتایا جاسکتا، جو اپنی جامعیت میں اسلام کے ہم پلہ تو کُجا اس کا عُشر عشیر بھی ثابت ہوسکے۔ اور ماضی میں بھی تاریخ شاہد ہے کہ اسلامی حکومت اپنے سنہرے دور میں نہایت وسیع تھی، جس کا رقبہ مشرق میں ملک چین سے لے کر مغرب میں اسپین کے پہاڑوں تک تھا، اس وسعت کے باوجود تاریخ میں یہ نہیں ملتا کہ کسی بھی زمانے میں مسلمانوں نے اغیار کے قانون سے استفادہ کیا ہو یا اسلامی قوانین بنانے اور آئین سازی کے لیے کسی اجنبی اور غیر ملکی قانون داں مشیرکار کو بلوایا ہو؛ بلکہ جب بھی اللہ تعالیٰ نے سربراہانِ لشکر کے ہاتھوں ملکوں کو فتح کرایا، تو علماء کرام کے ذریعہ قانون سازی کے لیے اجتہاد واستنباط کے دروازے کھول دئے؛ چنانچہ کسی بھی ضرورت کے متعلق اسلامی شریعت کا دامن تنگ نہیں رہا اور نہ کسی شعبہ میں کوتاہ دستی رہی، نہ کسی مسلمان، یہودی یا نصرانی کے مفادات سے شریعت ٹکرائی؛ بلکہ سب کے سب اس کے انصاف اور رواداری کے سائے میں خوش عیش رہے؛ جبکہ اسلام اپنے ابتدائی دور میں بدوی ماحول میں پروان چڑھا؛ لیکن اس کا مربی؛ چونکہ تمام انسانوں کا پالنہار ہے وہ مختلف زمانوں اور مکانوں میں اپنے بندوں کی مصلحتوں سے بخوبی واقف ہے؛ اس لیے قانونِ اسلامی اور شریعتِ حقہ میں وہ جامعیت اور ہمہ گیری ہے جس سے دوسرے ادیان ومذاہب اور آئین وقوانین خالی ہیں۔

           اسلام پیغمبرعلیہ الصلاة والسلام کے ذریعہ اللہ کا نازل کیا ہوا وہ دین ہے جو حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی نازل کیاگیا تھا۔ ان تمام انبیاء علیہم السلام کو دین کے قائم رکھنے کا حکم دیاگیا تھا اور ان کے واسطے سے تمام اہل ایمان کو حکم دیاگیا تھا کہ وہ دین میں اختلاف پیدا نہ کریں، ارشاد ربانی ہے:

          شرع لکم من الدین ما وصّٰی بہ نوحًا والذي اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم وموسی وعیسٰی ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ (سورة الشوریٰ ۱۳)

          تمہارے لیے اللہ تعالیٰ نے وہی دین مقرر کیا ہے، جس کا حضرت نوح علیہ السلام کو تاکیدی حکم دیاگیا تھا اور جو وحی کے ذریعہ آپ پر نازل کیاگیا ہے اور جس کا تاکیدی حکم ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا تھا کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ اندازی نہ کرو۔

          یہی وجہ ہے کہ اصولِ دین اور مقاصدِ شریعت میں تمام انبیاء اور اُن کے آسمانی مذاہب کے درمیان اتحاد ہے، توحید، الوہیت، رسالت، تقدیر، بعث ونشر وغیرہ پر ایمان لانا ہمارے لیے بھی ضروری ہے اور اممِ سابقہ پر بھی ضروری تھا۔ اسی طرح صدق، امانت، عبادت، احسان، عدل وانصاف اور سخاوت وغیرہ کا اُن کو بھی حکم دیاگیا اور امتِ محمدیہ بھی ان احکام کی پابند ہے۔

          لیکن مقاصدِ شریعت کے حصول کے طریقوں میں اختلاف ہوسکتا ہے؛ بلکہ ہوتا ہے کہ ہر امت کو اُس کے زمانے اور اس کی استعداد کے مطابق تعمیلِ احکام کی ہدایت دی گئی۔ ارشادِ خداوندی ہے:

          لکلٍ جعلنا منکم شِرعة ومنھاجاً (سورة المائدة ۴۸) ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے آئین اور طریقِ عمل مقرر کیا ہے۔

          مقاصدِ شریعت میں اتحاد کے باوجود کیفیت تعمیل یا اُن مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اسباب کے اختیار کرنے میں جو اختلاف ہوتا ہے اس کو فروعی احکام میں اختلاف کہا جاتا ہے؛ چنانچہ نماز، روزہ اور انفاق فی سبیل اللہ کے جو تفصیلی احکام میں امم سابقہ اور امت محمدیہ کے درمیان فرق ہے۔ خود امت محمدیہ میں نصوص کی بنیاد پر جو فروعی احکام میں اختلافات ہیں ان کو رحمت فرمایا گیا ہے، اس سے توسع پیدا ہوتا ہے اور اختلاف کرنے والے تمام اہلِ ایمان کا مقصود رضائے الٰہی کا حصول اور نجاتِ آخرت ہی ہوتا ہے۔

          اور اگر اختلافات کی بنیاد دنیاوی مفادات ہوں تو قرآن کریم میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔

          وما تفرقوا الا من بعد ما جاء ھم العلم بغیًا بینھم (شوریٰ ۱۴)

          اور نہیں متفرق ہوئے؛ مگر علم آجانے کے بعد، محض آپس کی ضد کی بنیاد پر۔

          آیتِ کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علم حاصل ہونے کے بعد اختلاف نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو بغیاً بینھم کے سبب ہوتا ہے اور آیت پاک میں جس چیز کو بغیاً بینھم کہا گیا ہے، اس سے مراد تعصب، نفسانیت، عداوت، حبِ جاہ اور حبِ مال جیسی چیزیں ہیں جو اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں اور ناپسندیدہ امور کے پیشِ نظر حق کو تسلیم نہ کرنا، اپنی مزعومہ رائے پر اصرار کرنا اور اختلاف پیدا کرنا ہرگز روا نہیں؛ کیونکہ امتِ مسلمہ کا اتحاد اوراس کے بقا و دوام کی کوشش ہر فرد کا فریضہ ہے، خصوصاً اہلِ علم اور اربابِ حل وعقد اس کے اولین ذمہ دار ہیں؛ چنانچہ ہر دور میں بہی خواہانِ امت نے اس کو اولیت دی ہے؛ حتیٰ کہ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں کہ اگر عوام میں فتنہ وانتشار کا اندیشہ محسوس کیاگیا تو نہ صرف یہ کہ اپنی رائے کے اظہار یا اس پر اصرار سے گریز کیاگیا؛ بلکہ اس سلسلے میں حدیث تک کو پیش کرنے، روایت کرنے یا اس کے مطابق عمل کرنے سے اجتناب کیاگیا بشرطے کہ مخالفِ قول وعمل، صریح حرام اور قطعی طور سے خلافِ شرع نہ ہو۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں:

          (۱) امام ابوداؤد نے اپنی سند سے عبدالرحمن بن یزید کا بیان نقل کیاہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعت نماز پڑھی تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے (اپنی نجی مجلس میں) کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو رکعتیں پڑھی ہیں، حضرت ابوبکر وحضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ دو رکعت پڑھی ہیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے شروع دورِ خلافت میں (بھی) دو رکعت پڑھی ہیں۔ پھر انھوں نے اِتمام شروع کردیا تو تم لوگوں کے راستے بھی مختلف ہوگئے۔ مجھے یہ پسند ہے کہ میں چار کے بجائے دو مقبول رکعتیں پڑھوں۔ پھر حضرت عبداللہ نے بھی (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے) چار ہی پڑھیں۔ پوچھا گیا کہ آپ نے تو حضرت عثمان پر اس سلسلے میں نقد فرمایا تھا، پھر چار پڑھ بھی لیں؟ ارشاد فرمایا ”الخلاف شر“ اختلاف بری چیز ہے۔

          (۲) حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں تحریر فرماتے ہیں:

          ”وہ حضرات جنھوں نے کچھ نوع کی احادیث بیان کرنے کو ناپسند کیاہے ان میں امام احمد بن حنبل ہیں، انھوں نے اُن احادیث کو بیان کرنے سے ناپسندیدگی ظاہر کی جن کے ظاہر سے حاکم وقت کی بغاوت کی حمایت ہوتی ہے۔ امام مالک ہیں جھنوں نے صفاتِ باری تعالیٰ سے متعلق احادیث بیان کرنے کو ناپسند کیا ہے۔ امام ابویوسف ہیں جو غریب اور انوکھے مضمون کی احادیث روایت کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت حذیفہ، نیز حضرت حسن بصری نے بھی حجاج ثقفی سے حضرت انس کے قصہٴ عرینہ بیان فرمانے پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا تھا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سے مظالم اور قتل وخونریزی کی بدعملی کو شہہ ملے۔

          ان تمام کی وجہ تقریباً ایک ہے کہ حدیث کے ظاہری معنی ایسے ہوں کہ اس سے کسی بدعت کو تقویت ملتی ہو اور وہ ظاہری معنی مراد نہ لیے جاسکتے ہوں تو اس کو ایسے شخص کے سامنے نہ بیان کرنا ہی پسندیدہ ہے جس کے متعلق اندیشہ ہو کہ اس کو ظاہر پر محمول کرتے ہوئے غلط استعمال کرے گا۔ (فتح الباری باب خص بالعلم قوماً دون قومٍ)

اسلام میں عقائد کی حیثیت

          انسان کے تمام افعال، اعمال اور حرکات کا محور اس کے خیالات ہیں، یہیں سے ان اعمال واقوال میں صلاح وفلاح اور فساد وبگاڑ آتا ہے۔ یہی عام خیالات اور حقیقت اس کے چند پختہ، غیر متزلزل اور غیر مشکوک اصولی خیالات پر مبنی ہوتے ہیں۔ انہی اصولی خیالات کو عقائد کہتے ہیں۔

          یہی وہ نقطئہ نظر ہے جس سے انسانی عمل کا ہر خط نکلتا ہے اور اس کے دائرئہ حیات کا ہر خط اسی پر جاکر ختم ہوجاتا ہے، ہمارے تمام افعال اور حرکات ہمارے ارادے کے تابع ہیں اور ہمارے ارادے کے محرک ہمارے خیالات اور جذبات ہیں اور ہمارے خیالات وجذبات پر ہمارے اندرونی عقائد حکومت کرتے ہیں عام بول چال میں انہی چیزوں کی تعبیر ہم ”دل“ کے لفظ سے کرتے ہیں۔ اسلام کے معلم نے بتایا کہ انسان کے تمام اعضاء میں اس کا دل ہی نیکی اور بدی کا گھر ہے۔ فرمایا:

          أَلَا وَانَّ فِی الْجَسَدِ لَمُضْغَةً اذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّہ وَاذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ کُلُّہ ألَا وَھِيَ الْقَلْبُ (صحیح البخاری کتاب الایمان)

          کہ غور سے سنو! انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ ٹھیک کام کرے تو سمجھو کہ پورا جسم ٹھیک کام کرے گا اور جب وہ خراب ہوجائے تو پورے جسم کا نظام خراب ہوجائے گا اور وہ دل ہے۔ پھر قرآنِ کریم نے دل کی تین صفات اور کیفیات بیان فرمائی ہیں: (۱) قلبِ سلیم (سلامت دل) ایسا دل جوگناہوں اور ہر طرح کے معاصی اور برے کاموں سے پاک و صاف رہ کر طبعاً نجات اور سلامت روی کے راستہ پر چلتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: الَّا مَنْ اَتَی اللہُ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ (سورة الشعراء ۸۹) مگر جو شخص سلامت دل لے کر آئے۔ (۲) قلب اثیم (گنہ گار دل) گناہوں اور نافرمانیوں کی راہ چلنے والا دل۔ ارشاد ربانی ہے: وَمَنْ یَکْتُمْھَا فاِنَّہ اٰثِمٌ قَلْبُہ (سورة البقرہ ۲۸۲) اور جو شخص گواہی کو چھپائے تو اس کا دل گنہ گار ہے۔ (۳) قلب منیب (رجوع ہونے والا دل) یعنی اگر کبھی بھٹکتا ہے اور بے راہ بھی ہوتا ہے تو فوراً نیکی اور حق کی طرف رجوع ہوتا ہے۔

          گویا یہ سب نیرنگیاں اسی ایک بے رنگ ہستی کی کارستانیاں ہیں، جس کا نام دل ہے۔ ہمارے اعمال کا ہر محرک ہمارے دل کا ارادہ ہے، اسی کی بھاپ کی طاقت اور پیٹرولی قوت سے اس مشین کا ہر پرزہ چلتا ہے؛ اسی لیے ارشاد نبوی ہے  انَّما الأعمالُ بالنیات کہ انسان کے اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔

اسلامی عقائد میں اعتدال

          اسلام مکمل راہِ اعتدالی کا نام ہے اور اسلام اور شریعت میں کسی بھی گوشہ سے افراط وتفریط نہیں ہے؛ کیونکہ اسلام کے شیدائیوں کی فضیلت ہی میں اعتدال کو بڑی اہمیت کے ساتھ قرآن کریم نے بیان فرمایا کہ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَسطاً لِتَکُوْنُوا شُھَدَاءَ عَلیَ النَّاسِ (سورة البقرہ ۱۴۳) اور اسی طرح ہم نے تم کو ایسی ہی جماعت بنایا ہے، جو نہایت اعتدال پر ہے؛ تاکہ تم لوگوں کے مقابلہ گواہ رہو۔

          مطلب واضح ہے کہ دوسری امتوں کے مقابلے میں یہ امت معتدل ہے، افراط وتفریط کے درمیان راہ چلنے والی ہے، خواہ اعتقادات ہوں، اعمال واخلاق ہوں یا دیگر کارنامے۔ پس اعتقادی اعتبار سے بھی اسلام اور اس کے ماننے والوں میں اعتدال ہوگا، جیساکہ اممِ سابقہ سے موازنہ کرنے سے عیاں ہوتا ہے کہ پچھلی امتوں میں ایک طرف تو یہ نظر آئے گا کہ اللہ کے رسولوں کو اس کا بیٹا بنالیا اور ان کی عبادت وپرستش کرنے لگے۔ وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُنِ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰریٰ الْمَسِیْحُ ابْنُ اللہِ (سورہ التوبہ ۳۰) کہ یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔ اور دوسری طرف انہی قوموں کے دوسرے افراد کا یہ عالم بھی مشاہدہ میں آئے گا کہ رسول کے معجزات دیکھنے اور پرکھنے کے باوجود جب رسول ان کو کسی جنگ وجہاد کی دعوت دیتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں۔ فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنا قٰعِدُوْنَ (سورة المائدہ ۲۴) کہ جائیے آپ اور آپ کا پروردگار وہی مخالفین سے قتال کریں، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ کہیں یہ بھی نظر آئے گا کہ انبیاء کو خود ان کے ماننے والے طرح طرح کی ایذائیں پہنچاتے ہیں۔

          اور امتِ محمدیہ ہر قرن اور ہر زمانے میں ایک طرف تو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ومحبت اور والہانہ تعلق رکھتے ہیں کہ ان کے قدموں میں اپنی جان ومال، آل واولاد اور عزت آبرو سب کو قربان کردیتے ہیں۔

سلام اس پر کہ جس کے نام لیوا ہیں زمانے میں

بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سرفروشی کے فسانے میں

          اور دوسری طرف یہ اعتدال کہ رسول کو رسول اور خدا کو خدا سمجھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بایں ہمہ کمالات وفضائل اللہ کا بندہ اوراس کا رسول کہتے اور مانتے ہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی اور نعت گوئی میں بھی ایک حدِ اعتدال قائم رکھتے ہیں جس کی غمازی یہ مصرعہ کرتا ہے۔

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اعمال وعبادات میں اعتدال

          عبادت اور عمل کے شعبہ میں بھی شریعت حقہ اور اسلام کے اندر وہ اعتدال ہے، جس سے ادیانِ سابقہ تہی دامن ہیں؛ مثلاً پچھلی امتوں میں ایک طرف تو یہ ہے کہ اپنی شریعت اور دین کو چند کوڑیوں کی خاطر فروخت کیا جاتا ہے، رشوتیں لے کر احکامِ شریعت میں تبدیلی اور ترمیم کی جاتی ہے، غلط فتوے صادر ہوتے ہیں اور طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں سے شرعی قوانین اور اصول کو بدل دیا جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر عبادات واعمال سے دامن بچانے کی ہر ممکن تدبیر کی جاتی ہے۔ اور دوسری جانب اُن کے مَعْبَدوں اور عبادت گاہوں میں ایسے حضرات بھی دکھائی دیتے ہیں جو دنیا اور دنیاکی تمام جائز ومباح چیزوں تک سے کنارہ کش ہوکر رہبانیت اختیار کیے ہوئے ہوں گے۔ ایسے حضرات اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اور پاکیزہ نعمتوں سے خود کو محروم کرلیتے ہیں اور بے جا سختیاں جھیلنے کو عبادت اور کارِ ثواب تصور کرتے ہیں۔ امت محمدیہ نے اس کے برخلاف رہبانیت اور ترکِ دنیا کو انسانیت پر ظلم قرار دیا، تو دوسری طرف احکامِ خدا اور ہدایاتِ نبوی پر مرمٹنے کا جذبہ پیدا کیا کہ قیصر وکسریٰ کے تخت وتاج کے مالک بن کر بھی دنیاوالوں کو یہ دکھلادیا کہ دیانت وسیاست میں یا دین ودنیا میں کوئی مخاصمت نہیں اور مذہب صرف مسجدوں اور خانقاہوں کے لیے ہی نہیں آیا؛ بلکہ اسلام کی حکمرانی تو بازاروں، دفتروں، وزارتوں، امارتوں، تعلیم گاہوں اور جنگ کے میدانوں تک میں ہے، اسلام نے بادشاہی میں فقیری اور فقیری میں بادشاہی کا تصور پیش کیا۔

معاشرتی اور تمدنی اعتدال

          اسلام کے علاوہ معاشروں کا حال نہایت افراط وتفریط کا شکار تھا کہ معاشرہ کے حال کا ایک رخ اور تصویر کا ایک پہلو تو یہ تھا کہ دوسروں کے حقوق کی کوئی پرواہ ہی نہیں تھی، نہ پڑوسیوں کے حقوق تھے، نہ رفقاء سفر کے، نہ عورتوں کے حقوق کا کوئی تصور تھا، نہ یتیم اور لاوارث بچوں کے اور نہ اولاد والدین کے حقوق کو جانتی تھی اورنہ والدین اپنی اولاد کے حقوق سے واقف تھے۔ غرض یہ کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا معاملہ تھا کہ پوری انسانیت کے حقوق پامال ہورہے تھے اور تصویر کا دوسرا رخ کچھ ایسا تھا کہ کیڑوں اور مکوڑوں کی ہتیا کرنے کو بھی حرام باور کیا جاتا ، حلال جانوروں کے ذبیحہ کو حرام خیال کیا جاتا اور خدا کے حلال جانوروں کے شکار کو گناہ اور بُرا جانا جاتا وغیرہ وغیرہ۔

          امتِ مسلمہ اور اُس کی شریعت نے ایک معتدل راہ اختیار کی کہ انسانیت کے ہر طبقہ کے حقوق کی رعایت کا حکم فرمایا اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ اور مالکِ کائنات کے حلال کردہ جانوروں کے گوشت کو حلال اور جائز قرار دیا۔

اقتصادی اور مالی اعتدال

          اس باب میں اعتدال قائم رکھنے کے لیے اسلام نے زکاة ، عشر، صدقہ اور خیرات وغیرہ کا ایک معتدل اور منظم دستور اور اصول قائم فرمایاکہ نہ تو سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت ووکالت فرمائی کہ جس میں حلال وحرام کا کوئی امتیاز کیے بغیر اوراسی طرح دوسروں کی بدحالی وخوش حالی سے صرفِ نظر کرکے صرف اور صرف زیادہ سے زیادہ مال ودولت جمع کرنے کو انسان کی سب سے بڑی فضیلت اور انسانیت کی معراج سمجھی جاتی ہے اور نہ ہی اشتراکی نظام کی اسلام نے پذیرائی کی کہ اس میں شخصی اورانفرادی ملکیت کو سرے سے ظلم قرار دیا جاتا ہے؛ کیونکہ دونوں مذکورہ نظاموں میں دولت کو مقصدِ زندگی بنالینا ہے؛ حالانکہ دولت انسان کی خادم تو ہوسکتی ہے؛ مگر مقصود ومطلوب نہیں۔

***

-----------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3‏، جلد: 98 ‏، جمادی الاولی 1435 ہجری مطابق مارچ 2014ء